از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
محترم ومکرم!
سلام مسنون
معاشرہ میں تعلیم اور آزادی کے بڑھتے اثرات
کے تحت جو خرابیاں آرہی ہیں، ان کو نمونہ کے طور پر حالیہ
دو واقعات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلے واقعہ میں رام پور اتر پردیش
میں ایک مسلم لڑکی غیرمسلم کے ساتھ بھاگ گئی، جس کے
بعد کے واقعات میں لڑکے کے محلہ کے ۶ گھر جلا دیے گئے اور کچھ سرکردہ مسلم لیڈران سمیت
۲۵۰
/افراد پر آگ، لوٹ مار،
بلوہ فساد کے کیس قائم ہوگئے ہیں۔ اسی طرح اتراکھنڈ میں
ہری دوار ضلع کے سرائے اور گاڈو والی گاؤں سے ایک کم عمر مسلم
لڑکی کے شیڈول کاسٹ نوجوان کے ساتھ بھاگ جانے کے بعد گرام پنچایت
نے گاؤں کی لڑکیوں پر گاؤں سے باہر جاکر نوکری کرنے پرپابندی
لگادی، جس پر ہندی اخباروں خصوصاً ”دینک جاگرن“ نے حسب معمول
اِشو بنالیا؛ کیوں کہ لڑکی مسلمان تھی؛ اس لیے خواتین
کی آزادی کے نام پر ایک میڈیائی جنگ چھیڑدی
گئی، جو گذشتہ ایک ہفتہ سے بلاناغہ کم سے کم ایک مکمل صفحہ؛ بل
کہ دو صفحات پر پھیلی تھی چھیڑدی گئی، جب کہ
گاؤں پنچایت کے پردھان محمد یاسین نے صاف کہا تھا کہ پابندی
صرف کم عمر لڑکیوں پر لگے گی اور ہم اِن کو بھی گاؤں کے اندر
روزگار دلانے کی کوشش کریں گے۔ پولس، پرشاسن، مسلم دانش فروش
اور ایمان فروش حضرات کے یک طرفہ بیانات نے ایسا ماحول
بنادیا کہ جیسے اس پابندی سے نہ جانے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے،
جب کہ ابھی چند دنوں پہلے ہی مردم شماری ۲۰۱۱/ کی عارضی تفصیلات میں بتایا گیا
کہ اسی آزادی نسواں اور مخلوط تعلیم اور روزگار کے ماحول میں
لڑکیوں کی شرح پیدائش پچھلے ساٹھ سالوں سے لگاتار گررہی
ہے، اس پر ان جسم فروش اور حیا فروش اخباروں اور نام نہاد دانشوروں نے
ہنگامہ نہیں مچایا، مادہ جنین کشی Female tocticide کے
نتیجہ میں ایک زبردست انسانی ٹریجڈی کے آثار
بن رہے ہیں اور اِس کا شکار زیادہ تر پڑھے لکھے، پیسہ والے اور
غیرمسلم حضرات ہی ہیں؛ مگر اس پر ہنگامہ نہیں مچایا
جارہا ہے۔
مسلم لیڈران دن رات آزادی نسواں اور تعلیم
نسواں کے وعظ الاپ رہے ہیں،مساوات مردو زن کے نعرہ لگارہے ہیں، انھیں
حقیقت کی دنیا میں آکر ان معاشروں کو دیکھ کر سبق لینا
چاہیے، جہاں یہ مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں؛ مگر کیا
وہاں عورت محفوظ ہے؟ کیا تعلیم اور کیریئر اور دولت کے
باوجود عورت کی عزت، وقار اور رشتوں کی مضبوطی بڑھی ہے؟
آج ہم جس مخلوط، بے حیا، شہوت انگیز ماحول میں رہ رہے ہیں،
اس میں خواتین کو بلا روک ٹوک مخلوط مقامات پر بھیج کر کیا
بحیثیت مسلمان مطمئن رہا جاسکتا ہے؟ یا پھر تعلیم اور ترقی
کی دیوی پر ایمان، عزت، عصمت کو بھینٹ چڑھادیا
جائے گا؟ اس رویہ پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ پٹرول اور آگ
کو اکٹھا کرکے دھماکہ ہونے سے گھبراتے ہیں۔ جب اسکول کالج میں
مخلوط اور شہوت انگیز ماحول میں مردوزن اکٹھا ہوں گے تو پھر کیا
وہ مسلم غیرمسلم سید یا بالمیکی کی تمیز
کریں گے؟ مگر جب ایسا ہوجاتا ہے جیساکہ رام پور اور ہری
دوار میں ہوا تو ہم پھر مسلمان بن کر ہنگامہ آرائی کرتے ہیں اور
ہماری بیٹی عدالت میں کہتی ہے کہ میں تو اپنے
بالمیکی دوست کے ساتھ ہی رہوں گی، تب آپ کی ایمان
کی حس جاگتی ہے، تو کیا یہ منافقانہ عمل قابل قبول اور
قابل عمل ہے؟ تمام فکر مند علماء اور والدین کو غور کرنا چاہیے!
والسلام
$ $ $
-----------------------------------
ماہنامہ
دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ، رمضان — شوال 1432 ہجری
مطابق اگست — ستمبر 2011ء